فریاد آزرؔ ایک نظر میں

https://mail.google.com/mail/u/0/images/cleardot.gif

فریاد آزرؔ ایک نظر میں


ڈاکٹر فریاد آزر(سید فریاد علی) دس جولائی انیس سو چھپن کو بنارس ضلع کے غوثیہ ٹاؤن میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد الحاج سید عبدالحق شاہ قادری قالین کے ایک اہم تاجر تھے،لیکن فریادآزؔ ر کی اعلاٰ تعلیم کی تشنگی انھیں انٹر میڈیئیٹ کے بعد 1972 میں دہلی کھینچ لائی۔انھوں نے دہلی یونی ورسیٹی سے بی اے، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ایم اے اور بی ۔ایڈ کی ڈگریاں حاصل کیں اور جواہر لال نہرو یونیورسیٹی سے ماس کمیونیکیشنس میڈیا کا ایڈوانس ڈپلومہ حاصل کیا اور پھر آخر میں ڈاکٹر شمیم حنفی کی نگرانی میں جامعہ ملیہ سے ہی ’’اردو اور ہندی کی رومانی شاعری کا تنقیدی مطالعہ‘‘ پر پی ۔ایچ۔ڈی ڈگری کے لئے مقالہ لکھا۔
فریاد آزرنے شاعری کی الف بے بنارس میں وہاں کے مقبول شاعر ساجنؔ پردیسی سے سیکھی لیکن جامعہ میں پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اس سلسلہ میں ان کا ہاتھ ڈاکٹر عنوان چشتی کے ہاتھ میں دے دیا اور صحیح معنوں میں فریاد آزر کی شاعری کا آغاز جامعہ ملیہ سے ہی ساتویں دہائی کے اواخر سے ہوا۔ ابتدا سے ہی وہ برَ صغیر کے اہم ترین رسائل شاعر،شب خون ، آہنگ ،ادبِ لطیف اورافکارمیں کثرت سے شائع ہونے لگے۔اسی عہدمیں ہی ان کی شاعری کے تیور کو دیکھ کر انھیں’’ نئی غزل کا اینگری ینگ مین‘‘ کہا جانے لگا۔ ان کی غزلوں کا پہلا مجموعہ’’ خزاں میرا موسم ‘‘ 1994 میں شائع ہوا۔ اسکول کے چھوٹے بچوں کی قربت میں ان کی فی البدیح شاعری کا مجموعہ ’’بچوں کا مشاعرہ‘‘ دہلی اردو اکادمی کی طرف سے 1998میں شائع کیاگیا اور پھراس کا دوسرا ایڈیشن بھی دہلی اردو اکامی نے شائع کیا ۔ان کی غزلیہ شاعری کا دوسرا مجموعہ ’’قسطوں میں گزرتی زندگی 2005 میں شائع ہوا۔ ان کی غزلوں کا انتخاب ’’ کچھ دن گلوبل گاؤں میں‘‘ 2009 میں شائع ہوا اور اس کتاب کو دہلی اردو اکادمی نے 2010 میں اعزاز سے بھی نوازا۔ عنقریب ان کی غزلوں کا تیسرا مجموعہ ’’اے لیئن ‘‘ یعنی دوسرے سیارے کا آدمی منظرِ عام پر آنے والا ہے۔
نئی نسل کے اہم ترین نقادوں مسلاً حقانی القاسمی پروفیسرابنِ کنول،ڈاکٹر مولا بخش اور ڈاکٹر کوثر مظہری وغیرہ نے انکی شاعری پر طویل مضامین لکھے ہیں اور اب جلد ہی ان کی شخصیت اور شاعری پر ڈاکٹر مولا بخش کی کتاب ’’ نئی غزل کا اینگری ینگ مین‘‘ منظرِ عام پر آنے والی ہے۔
ماہنامہ شاعر ممبئی نے انی کی شعری خدمات پر مختصر گوشہ، سہ ماہی انتساب سرونج نے طویل گوشہ اور پھر سہ ماہی تحریک ادب وارانسی نے طویل گوشہ شائع کیا۔
ڈاکٹر فریا آزر برسوں ماہنامہ انٹرنیشنل اردو میڈیا،دہلی اور ماہنامہ عاکف کی محفل ،دہلی کے مدیرِ اعزازی رہے۔ اب انٹر نیٹ پر اردو کی خدمت بڑے ذوق و شوق سے کے کر رہے ہیں۔سہ ماہی ویب زین سمت کے اعزازی ایڈیٹر ہونے کے ساتھ ہی ساتھ’’ادب ڈاٹ کوم ‘‘ جو کہ انٹر نیٹ پر گوگل کا اردو کاسب سے بڑا ادبی گروپ ہے، اس کے موڈریٹر بھی ہیں۔عالمی پیمانہ پرکم و بیش اس گروپ کے پچاس ہزار ممبر ہیں۔فریاد آزر کی ان خدمات سے متاثر ہو کر وائس آف امریکہ سے ان کا طویل انٹر ویو دو قسطوں میں گزشتہ مئی 2014 میں چار اور گیارہ تاریخ کی را ت ساڑھے دس سے گیارہ بجے تک نشر کیا گیا۔
انھیں سابق صدرِ جمہوریہ گیانی ذیل سنگھ نے نشانِ غزل اعزاز سے نوازا تھا۔
فریاد آزر کا ایک شعر 
چلے تو فاصلہ طے   ہو نہ   پایا لمحوں کا
رکے تو پاؤں سے آگے نکل گئیں صدیاں



****


3 comments:

Muslim Saleem کہا...

fariyad azar sb Urdu ki besh baha khidmat anjaam de rahe hain.

Ahmad Ali Barqi Azmi کہا...

ڈاکٹر فریاد آزر کا تعارف دیکھ کر
ان کے فکر و فن کی جہتیں مجھ پہ روشن ہو گئیں
احمد علی برقی اعظمی

Ahmad Ali Barqi Azmi کہا...

ڈاکٹر فریاد آزر کا تعارف دیکھ کر
ان کے فکر و فن کی جہتیں مجھ پہ روشن ہو گئیں
احمد علی برقی اعظمی

ایک تبصرہ شائع کریں